جسم و جاں پر سوار رہتا ہے
میرے دل کو قرار رہتا ہے
دل کا کمرہ تو کھول کر دیکھوں
میرا اس میں ہی یار رہتا ہے
جس کی بانہوں میں زندگی میری
اس کا دل میں شمار رہتا ہے
رقص حیرت کا دیکھنے شاید
ڈالِ دل پر ہی یار رہتا ہے
حوصلہ دینے تجھ کو پھر وشمہ
میری آنکھوں میں پیار رہتا ہے