قاتل بھی وہی، اور مسیحا بھی وہی ہے
ہم زخم کو چپ چاپ، تماشا بھی وہی ہے
تم خندہ زنی کر کے گزر جاتے ہو لیکن
دل خون ہوا، حال کا افسانہ بھی وہی ہے
ہم خاک تھے پہلے بھی، اب اور دبا دیجے
تقدیر جو تھی ساکت، وہ نقشہ بھی وہی ہے
بیتاب نظر، دل پہ گھنی رات کا سایہ
اک درد تھا پہلو میں، اب سایہ بھی وہی ہے
جو آہ نکلتی ہے، وہ سنسان فضا میں
اک بار سنی تھی، وہ صدا بھی وہی ہے
ہم کو نہ ملا چین، نہ دنیا نے شناسا
غم ہے، وہی تنہائی، وہ تنہا بھی وہی ہے
روخشان یہ غزل چھوڑ، چلے دل کو بہلانے
لیکن جو تھا دلگیر، وہ جھونکا بھی وہی ہے