ہرچند کہ کبھی رات نے سو رج نہیں دیکھا
دیکھے تو بہت ہیں کوئی تجھ سا نہیں دیکھا
ہنستے ہوئے اسکے لب و رخسار تو دیکھ
حیران ہے چاند اس نے خود سا نہیں دیکھا
واللہ اس بت خاکی سے نظر ہی نہیں ہٹتی
صورت مجسم مہتاب کا ٹکڑا نہیں دیکھا
دل سے نہیں جاتی لب و لہجے کی حلاوت
اثر اس کا میری روح پر کیسا نہیں دیکھا
دل کی یہی حسرت طاقت گفتار نہیں باقی
اس پیکر پریخانہ میں کیا کیا نہیں دیکھا
طا قت گفتار نہیں باقی ہوں انگشت بدانداں واسع
یوں سحر اس کے روپ کا کبھی چھایا نہیں دیکھا