جنبش لب کی شوخیاں دستور ہو گئیں
پل بھر کی ہنسی روح کا ناسور ہو گئیں
کچھ سلسلہ تھا زنجیر حوادث کا راہوں میں
رعونت کے خدوخال میں محصور ہو گئیں
پشیمانیوں کے پیکر تھے محتاج دعاؤں کے
وہ قبولیت کے لمحوں سے بہت دور ہو گئیں
کچھ شوخیاں تجلیاں تھیں زاہد کی شام میں
مومن کی نظریں مہ کدے میں بے نور ہو گئیں
وہ مر مریں پیکر کی حسیں شوخ نگاہیں
حسن کی سلطنت میں مشہور ہو گئیں
پیغام آ گیا ہے منصف کا عدالت سے
رندوں کی سب ضمانتیں منظور ہو گئیں