کسی بھی رت کا یہ پابندی تھوڑی ہوتا ہے
جنوں بہار کی سوگند تھوڑی ہوتا ہے
ہے جس کو درد کا یارا بڑھائے اپنے قدم
کسی پہ عشق کا دربفد تھوڑی ہوتا ہے
نمو ترنگ میں ہے خار خار شاخِ گلاب
جنوں کا عشق پہ پیوند تھوڑی ہوتا ہے
گھلا ہی دے گی یہ دل کی لگی تمہیں اک دن
مٹے بنا یہاں آنند تھوڑی ہوتا ہے
بنانے پڑتے ہیں بت اپنی آرزوؤں کے
کوئی خود اپنا خداوند تھوڑی ہوتا ہے
کئی حقیقتیں بین السطور ہوتی ہیں
فسانہ یونہی قلم بند تھوڑی ہوتا ہے
ہزار بار کھلے دل پہ جبر کا مفہوم
یہ حجتی ہے ، رضا مند تھوڑی ہوتا ہے
بغیر جوش تخیل بغیر ہوش بیاں
کوئی بھی لہجہ تنو مند تھوڑی ہوتا ہے
جنوں فزا ہے مگر پندِ نا صحان طارق
یہ نشہ آپ سے دو چند تھوڑی ہوتا ہے