جنگل میں ہے منگل کا سماں سوچ کے آ جا
چاہت ہے ابھی اپنی جواں سوچ کے آ جا
بکھری ہوئی کب سے ہیں تعلق کی لکیریں
اب دفن نہ ہو جائے فغاں سوچ کے آ جا
ہو سکتا ہے مل جائیں کسی موڑ پہ ہم تم
تقدیر کا زندہ ہے نشاں سوچ کے آ جا
مجبور محبت کے یہ قصے نہ سناؤ
اس وقت ہے الفت کا سماں سوچ کے آ جا
اس یاد کے منظر میں لگی آگ ہے کب سے
بھر جائے نہ آنکھوں میں دھواں سوچ کے آ جا
دم توڑنے والی ہیں پرندوں کی صدائیں
ہونے کو ہے مغرب کی اذاں سوچ کے آ جا
پھل جائے کہیں کاش اے وشمہ یہ محبت
پھر لوٹنے والی ہے خزاں ، لوٹ کے آ جا