جنگل کی خشک شام تو پہلے کبھی نہ تھی
یہ زندگی بے دام تو پہلے کبھی نہ تھی
بیکل سی ہوں تڑپتی ہواؤں کے درمیاں
اتنی اداس شام تو پہلے کبھی نہ تھی
جس میں نہ ہو تمہاری وفاؤں کا تزکرہ
یہ زیست میرے نام تو پہلے کبھی نہ تھی
مانا کہ ریل گاڑی ہے غم کی یہ زندگی
اتنی بھی تیز گام تو پہلے کبھی نہ تھی
پینے سے جس کے ہوش اڑے ، جان سے گئے
آنکھوں میں ایسا جام تو پہلے کبھی نہ تھی
وشمہ تمہارے بعد بڑھی وحشتِ الم
گلشن میں گرد عام تو پہلے کبھی نہ تھی