جو تھا دِل میں اُتَر جانے کا لالچ
بنا جاں سے گُزَر جانے لالچ
بَھری محفِل میں کر رُسوا گیا وہ
مُجھے تھا جِس کے گَھر جانے کا لالچ
جو ہیں چہرے پہ اِتنے کیل چھائیاں
نہ کام آیا نِکَھر جانے کا لالچ
کہیں جاں بھی نہ لے جاۓ تُمہاری
تِرا کُہسار پَر جانے کا لالچ
اُسے تھی قَتل کرنے کی تَمنا
مُجھے باہوں میں مَر جانے کا لالچ
مِری کُچھ پیار کر لینے کی پُھرتی
اُسے زُلفیں سَنور جانے کا لالچ
اُسے باقرؔ تھی گھر جانے کی جَلدی
مُجھے کُچھ دِن ٹھہر جانے کا لالچ