جو جذبوں پر تھے قائم وہ بھی رشتے ٹوٹتے دیکھے
وفا کے سچّے بندھن اور وعدے ٹوٹتے دیکھے
شبِ غم میں بجھا رکھے تھے سانسوں کے دیئے ہم نے
سکوں طاری تھا جن پہ وہ بھی لمحے ٹوٹتے دیکھے
ہماری زندگی تو رتجگا تھی جاگتے گذری
نہ دیکھے تھے جو آنکھوں نے وہ سپنے ٹوٹتے دیکھے
وفا کی پیا ر کی ڈوری میں جو ہم نے پروئے تھے
وہ موتی آنسووں کے ہم نے سارے ٹوٹتے دیکھے
نجانے کیاچھپاہو تیری چاہت کے سمندر میں
کہ میں نے رات بچبن کے کھلونے ٹوٹتے دیکھے
مرادؔ اس عشق کے ہاتھوں ملیں رسوائیاں سب کو
کہیں گُل تو کہیں پر ماہ پارے ٹوٹتے دیکھے