چاہتوں کے سارے لمحے حادثے لکھتا رہا
اس طرح وہ قربتوں کو فاصلے لکھتا رہا
کوچۂ ادراک حائل تھا جنوں کی راہ میں
وصل کی شب بھی ملن کے راستے لکھتا رہا
آنسوؤں کی بارشوں نے بھی نہیں بدلا مزاج
عشق اور میرے جنوں کو واہمے لکھتا رہا
خواہشوں کی گرد میں لپٹی ہوئی تصویر پر
عمر بھر اپنی وفا کے حاشیے لکھتا رہا
اُس سے ملکر بھی مکمل نہ ہوا اپنا ملاپ
عالمِ وحشت میں بھی میں ضابطے لکھتارہا
تشنگی تھی اور صحراوں کی لذت تھی مراد
پیاس میں پیتا رہا وہ ذائقے لکھتا رہا