جو رنگینی ہے اس جہاں کی یہ تو ان کا شباب ہوگا
یہ ترنم جو پھوٹتے ہیں یہ بھی ان کا خطاب ہوگا
ستارہ آنکھیں جو ہوں گی اُن کی اور چہرہ کتاب ہوگا
جو ہوگئے ہیں ان پہ قرباں کہاں دلوں کا حساب ہوگا
مجھ سے ان کو جو ہوگی نفرت اور یونہی انکا حجاب ہوگا
حسرت و ارماں کے سوا پھر کون میرا ہم رکاب ہوگا
یوں ہی سدا جو ان کی ان مسکراہٹوں کا سراب ہوگا
میری جوانی کا تو عمر بھر یوں ہی خانہ خراب ہوگا
جو ہوگا ان سے وصل کا دن وہ تو یوم حساب ہوگا
دل میرا قیصر فراق میں جل جل کے تب تک کباب ہوگا