جو لفظ سینہ قرطاس پر نہیں آیا
چراغ ہے جو سرِ رہگزر نہیں آیا
وہ پھول بیچنے نکلا تھا صبح بستی میں
پھر اس کے بعد کبھی لوٹ کر نہیں آیا
لہو جلایا گیا رتجگے گزارے گئے
ہمیں تو غیب سے علم و ہنر نہیں آیا
یہ داستانِ الم کس طرح بیاں ہو گی
انھیں سکوت سمجھنا اگر نہیں آیا
یہ احتجاج تھا اس شہر کی فضا کے خلاف
کسی درخت پہ کوئی ثمر نہیں آیا
حدودِشہر کے باہر ہوا تھا رقصِ ہوا
یہاں تو عکسِ ہوا بھی نظر نہیں آیا
تمام عمر کی وحشت کے بعد بھی مظہر
سمجھ میں قصہ ء شام و سحر نہیں آیا