دلِ مضطرب تجھے کیا ہُوا ، ہے اداس اور بجھا بجھا
جو نگاہِ ناز میں تھا جچا ، ترا بانک پن وہ کِدھر گیا
تری خامشی میں سوال ہے، ترا ضبط بھی تو کمال ہے
ہُوا کچھ توَ ہے کہ نِڈھال ہے، ترا ساز، سوز میں کیوں ڈھلا
یوں گھڑی گھڑی نہ ستا مجھے، جو بُرا لگا ہے بتا مجھے
کوئی زخم ہے تو دِکھا مجھے، تو نہ ضبط میرا یوں آزما
جہاں رک گیا مرا هم قدم ، وہیں آن پہنچے تھے رنج و غم
اُسی موڑ پر ہوئی آنکھ نم، نہیں بھُولتا ہے یہ حادثہ
وہ جو زندگی کی اَساس تھا، وہ جو ایک شخص ہی راس تھا
مِری آس تھا مِرے پاس تھا، کہیں کھو گیا، کہیں جا بسا
وہ تَو ہو گیا کسی اور کا، تو ہے جس کے سوز میں گُھل رہا
تجھے چھوڑ کر جو چلا گیا، وہ نہ مل سکے گا کبھی رضاؔ
نہ فریب میں تو اب اور آ، کہ ہے خار دار یہ راستہ
ابھی وقت ہے مری مان جا ، کہیں جاں نہ لے لے یہ عارضہ