جو چاہے وہی کرے یہ کائنات ان کی تھی
جس کے پہچان سے ہم، وہ ذات ان کی تھی
زائد بیاں تو میرے روح سے چکا ہے
کہ میری تباہی میں ضمانت ان کی ہی تھی
عشق کی گرفت میں زندگی اپہاج بن گئی
فرقت میں فرسودہ عنایت جس کی بھی تھی
مغروری آفتابی کو ہم نے ہر بار برتر ہی رکھا
تیرے اہتمام میں وہ شجاعت کس کی تھی
تو اپنی بلندی سے دیکھ کہ ہم کتنے لگتے ہیں
اوچائی سے نہیں گرے، یہ بات بے بس کی تھی
ہمارے پاس تکلیف کے سوا رہا بھی کیا ہے
دن کو آتشی ملی اور رات قفس کی تھی