جو ہمت سے چلے رہتے ، کنارے مل ہی جانے تھے
اگر منزل نہیں دکھتی ، اشارے مل ہی جانے تھے
یہاں موسم بدلنے تھے ، بہاریں پھر سے آنی تھیں
زبانیں پھر سے کھُلنی تھیں، پکاریں پھر سے آنی تھیں
نہ راہوں کو جدا کرتے ، نظارے مل ہی جانے تھے
اگر منزل نہیں دکھتی ، اشارے مل ہی جانے تھے
کہ کوچہ ءِ ستم گر میں ، صدائے دلبری کرتے
کوئی آواز دیتے ہم ، کبھی سودا گری کرتے
منافع گر نہیں ملتا ، خسارے مل ہی جانے تھے
اگر منزل نہیں دکھتی ، اشارے مل ہی جانے تھے
مری تحریرمیں شاید کمی باقی رہی ہو گی
لہوکیکچھ نہ کچھ خط میں نمی باقی رہی ہو گی
وگرنہ کچھ گھڑی ہم کو، ہمارے مل ہی جانے تھے
اگر منزل نہیں دکھتی ، اشارے مل ہی جانے تھے
نہ ہوتی آشنائی بھی اگر ہم تم نہیں ملتے
کسی کو ہم پسندآتے ، کسی کوہم صنم کرتے
ہمیں بھی راہ چلتے کچھ سہارے مل ہی جانے تھے
اگر منزل نہیں دکھتی ، اشارے مل ہی جانے تھے