جو ہمت سے چلے رہتے ، کنارے مل ہی جانے تھے
Poet: محمود حسین عاکف By: محمود حسین عاکف, Sialkotجو ہمت سے چلے رہتے ، کنارے مل ہی جانے تھے
اگر منزل نہیں دکھتی ، اشارے مل ہی جانے تھے
یہاں موسم بدلنے تھے ، بہاریں پھر سے آنی تھیں
زبانیں پھر سے کھُلنی تھیں، پکاریں پھر سے آنی تھیں
نہ راہوں کو جدا کرتے ، نظارے مل ہی جانے تھے
اگر منزل نہیں دکھتی ، اشارے مل ہی جانے تھے
کہ کوچہ ءِ ستم گر میں ، صدائے دلبری کرتے
کوئی آواز دیتے ہم ، کبھی سودا گری کرتے
منافع گر نہیں ملتا ، خسارے مل ہی جانے تھے
اگر منزل نہیں دکھتی ، اشارے مل ہی جانے تھے
مری تحریرمیں شاید کمی باقی رہی ہو گی
لہوکیکچھ نہ کچھ خط میں نمی باقی رہی ہو گی
وگرنہ کچھ گھڑی ہم کو، ہمارے مل ہی جانے تھے
اگر منزل نہیں دکھتی ، اشارے مل ہی جانے تھے
نہ ہوتی آشنائی بھی اگر ہم تم نہیں ملتے
کسی کو ہم پسندآتے ، کسی کوہم صنم کرتے
ہمیں بھی راہ چلتے کچھ سہارے مل ہی جانے تھے
اگر منزل نہیں دکھتی ، اشارے مل ہی جانے تھے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






