سوئی ہوئی آنکھوں کو جگا دیتا ہے اکثر
ہر خواب نگاہوں سے چھپا دیتا ہے اکثر
وہ خاک سر محفل بھرم رکھے گا ہمارا
جو جذبوں کے سمندر کو سلا دیتا ہے اکثر
خود دور سے کرتا ہے نظارہ میرے گھر کا
غیروں کو میرے در کا پتہ دیتا ہے اکثر
اب اس کو کسی شام کی امید ناں دلاؤ
وعدہ جو وہ کرتا ہے بھلا دیتا ہے اکثر
وہ حسن کی آغوش میں سمٹتا ہوا اک پل
ہر رات نئے موڑ پے اسے بہلا دیتا ہے اکثر