بے رنگ سی بستی میں صبا کیسے ملے
اجڑے ھوئے لوگوں میں وفاء کیسے ملے
وہ دشمن ھوا میرا مگر پاس رہا تھا
سنگدل سے دوعاؤں کی صدا کیسے ملے
رسوائیوں کے سبھی رنگ ہیں مجھ میں سمائے
یوں سرکتے ھوئے آنچل سے حیاء کیسے ملے
پھر شام و سحر وقت کی یوں قید میں گزرے
بند دروازوں سے آزادی کی ھوا کیسے ملے
یوں عمر کی دھلیز پہ تنہا ہی رھے ھم
اب جھریوں بھرے ہاتھوں پہ حنا کیسے ملے