بل بوتے پہ دولت کے پہچان اٹھا لائے
شاعر نما شاعر بھی دیوان اٹھا لائے
جھوٹے کی نشانی کو بس اتنا ہی کافی ہے
ہر بات پہ وہ جاکر قرآن اٹھا لائے
اے "بحر" مقابل میں اک چھوٹی سی کشتی کے
اوقات دکھادی نا ! ، طوفان اٹھا لائے
زائر بھی مزاروں کے دیکھا ہے دھماکوں میں
مرتے ہوئے لوگوں کا سامان اٹھا لائے
کفار سے بھی بدتر جس جا ہو مسلمانی
اِس جا سےتو برکت بھی رحمان اٹھا لائے
قرآن کو سینوں میں کب ہم نے اتارا ہے
رکھنے کو مگر خوشبو جُزدان اٹھالائے
اے میرے وطن مجھ پر احسان کرم تیرا
ہم تیرے توسط سے پہچان اٹھا لائے
سب "ناموں" کے دیوانے تم شعر کے رسیا ہو
کیا سوچ کے تم مجھ سا انجان اٹھا لائے
اصرار پہ جب انکے دل پیش کیا " بولے"
گھر اتنا کہاں سے تم سُنسان اٹھا لائے؟
انداز سخنور سا ، بس نام کا مفتی تھا
سو اس کو بنا کر ہم مہمان اٹھا لائے