جینے کی خواہشیں بھی بجھنے لگی ہیں اب
دل کو نہیں قبول کوئی بھی صدا، بنا تیرے
خوابوں کی روشنی بھی لگتی ہے بے اثر
آنکھوں میں جو اترتا تھا وہ تھا، بنا تیرے
تنہائی میرے ساتھ اب رہنے لگی ہے یوں
جیسے کوئی رشتہ ہو گیا ہو بنا تیرے
لَمسِ ہوا میں بھی وہ حرارت نہیں رہی
جس میں کبھی مہکتا تھا دل کا دِیا، بنا تیرے
سُنسان ہر گلی ہے، اُدھورا ہے ہر سفر
پایا نہیں سکون کا راستا، بنا تیرے
ذکرِ وفا ہو یا کوئی وعدہءِ دیرپا
سب کچھ ہے میرے سامنے، کیا ہے بنا تیرے؟
اب بھی کبھی کبھی یہ سوال کرتا ہوں
مظہر، کچھ بھی رہ گیا ہے میرا تیرے بنا؟