چُرا لائی ہے خوشبو تیری سانسوں سے بہار
بسی ہوئی ہے مہک تیرے بدن کی پُروائیوں میں
اوس قطرے چمکتے ہیں تیرے پسینے کی مانند
تیرے چہرے کی جھلک ہے صبح کے اجالوں میں
نرم و ملائم جسم پے تیرے کہ نظر تک نہ ٹھہرے
بھیگوے رکھا ہو جیسے برسوں تمہیں شہد میں
دودھ دھولی رانوں پے تیری سر رکھ کر
اُتر جاؤں میں تیری روح کی وسعتوں میں
چھُو لوں تجھ کو اور فنا ہو جاؤں
قیامت خیز غضب ہے تیری قربت میں
تیری دید سے ہے وابستہ آسودگی دل کی
اک تیرے دیدار سے ہی ہے رونق میری تنہائیوں میں
تیرے گھنے گیسوؤں کی چھاؤں میں گزرے ہر شب
وقت کبھی ایسا بھی آئےگا دوسی، تیری زندگی میں