حسرت کی ہے آبیاری وہ بیاباں نہیں ہوتے
صحراء نے اُٹھ کر کہا ہم سنساں نہیں ہوتے
شاید کسی کو ہمارے مزاج پسند بھی آجائیں
مگر سبھی ممتحن اتنے مہرباں نہیں ہوتے
ایک آرزو کے پیچھے کتنا بھٹکتے ہیں کہ
خود کو سمجھنے لیئے گریبان نہیں ہوتے
دلوں کی سوداگری اداؤں نے جیت لی
لیکن خریدار اتنے بھی قدردان نہیں ہوتے
اوروں کی تشخیص رہتی ہے دن اور رات
عاشقوں کو اپنے ارمان نہیں ہوتے
کہیں تو عبث بے بسی بھی ملتی ہے
وہاں استدعا کے سوا فرماں نہیں ہوتے