حسن جلوہ نما قمر ہوتا
ذکر ان کا نگر نگر ہوتا
بکتے بازار مصر میں وہ بھی
دام ان کا بھی خوب تر ہوتا
رشک آتا اداوں پر ان کی
مستی جاناں میں دن بسر ہوتا
بھول جاتے گلاب کھلنا بھی
ناز میں ان کہ یہ ہنر ہوتا
صاف آتے نظر وہ چلمن سے
وجد میں میرا بھی شکر ہوتا
سانولی لڑکی کی کشش کا بھی
شوقؔ کے دل پہ اک سحر ہوتا