حسن تیرا تھا فانی پھر کیسا غرور تھا
کیسے تجھے سمجھاتے یہ مسئلہ ضرور تھا
پرستش تیری کریں یہ تمنا ہے آج بھی
نادانی کرتی جوانی یہ فکر حضور تھا
تجھے سامنے جو پایا ہر لفظ کھو دیا پھر
اس وقت کو گنوایا وہ میرا قصور تھا
ماضی کے سارے قصے اب یاد بن گئے ہیں
تیرے ساتھ جو بیتایا ہر لمحہ سرور تھا
اس مرمریں بدن کو چھوتے تو کیسے جانم
ٹوٹ کے تو بکھرتی ہمیں اتنا شعور تھا