حسُن کی نزاکت کے سبھی یہ مغروُر راستے
پل بھر کے سکوں لیئے بن گئے دستوُر راستے
میں منزلوں کے رُخ پہ بڑے لحاظ سے چلا
مگر میری غرض سے رکھتے تھے غروُر راستے
پسُت حوصلوں نے ان کو تحسین نہ دی
ورنہ راست بازی سے ہوئے ہیں ناموُر راستے
جہاں خیال مڑا وہاں سوچیں مڑتی گئی
ہر موڑ پہ نکلے میرا ہر سروُر راستے
میرے خوابوں کو فریب کا بھی کیا پتہ
کہ پیچیدگیوں کے آگے ہیں سب مشہوُر راستے
جو مقدر نے سونپے تو چلتا ہی گیا سنتوشؔ
مگر زندگی کے لئے نکلے سبھی غیر ضرور راستے