حسینا ، نازمین ، گُل بدن ، دلنشین
اُس کے حُسن کا ثانی ، کوئی کہیں نہیں
آنکھیں جھیل سی گہری اور صورت گلاب جیسی
بولے تو صدا لگے اِک بجتے رُباب جیسی
چاند بھی اُس کا عاشق ، اِس قدر ہے حسین
حسینا ، نازمین ، گُل بدن ، دلنشین
بلبل چھوڑ کر گُل اُس سے سُر ملائے
حُوریں دیکھ کر اُسے کہتی ہے ہائے ، ہائے
اُس کے ہی منتظر سب کیا آسمان زمین
حسینا ، نازمین ، گُل بدن ، دلنشین
نہالؔ کو ملی ہے پَریوں سے خوبصورت
معصوم سی ہیں ادائیں ، معصوم سی بناوٹ
نام رکھا ہے میں نے اُس کا کومل پَری
حسینا ، نازمین ، گُل بدن ، دلنشین