خاموش سمٹی بیٹھی ہے محفل تمام وہ
لگتے ہیں طیش میں بڑے نازک اندام وہ
یونہی ذرا سی بات پہ روئے وہ سامنے
لیں گے اب اور کتنے بھلا انتقام وہ
پھولوں کو نہیں چھوتے مانا وہ آج کل
رکھتے ہیں رکھ رکھاؤ بڑا التزام وہ
طے گرگئے وہ یکدم برسوں کے فاصلے
کیا ساتھ چلیں رکھتے ہیں تیز اپنے گام وہ
جگنو کوئی قاصد تھا اب مگر صادق
چراغ بجھادیتے ہیں گھر کے ہر شام وہ