چلو بھول جائیں ہم اپنے سب خوابوں کو
دل میں دفن کر دیں اپنے تمام جوابوں کو
تمہارے ہر سوال کو ابدی زندگی دے دیں
محبت کو اپنی صورتِ بندگی دے دیں
صرف اپنے لیے جینا ہم نے نہیں سیکھا
چھین لینا جھپٹ لینا ہم نے نہیں سیکھا
اگر کو ئی مانگے تو ہاتھ کھول دیتے ہیں
وفائیں ہم دشمنوں کو بھی بے مول دیتے ہیں
سمجھ پایا نہیں کوئی کسی کے دل کا حال کبھی
کبھی خوشی ملتی ہے کسی سے تو ملال کبھی
صرف پانا نہیں محبت کبھی، کھو کے بھی دیکھتے ہی
خاطر اور کسی کی کسی کا،ہو کے بھی دیکھتے ہیں
تم نفرت کرو ہم سے ہم محبت پھلائیں گئے
چاہ تھا تمہیں جیسے عمر بھر چاہیں گئے
کنولؔ جدا ہو کر بھی کہاں محبوب جدا رہتے ہیں
خاموشی جو کہہ جاتی ہے الفاظ کہاں کہتے ہین