خاموشی

Poet: kanwal naveed By: kanwal naveed, karachi

چلو بھول جائیں ہم اپنے سب خوابوں کو
دل میں دفن کر دیں اپنے تمام جوابوں کو
تمہارے ہر سوال کو ابدی زندگی دے دیں
محبت کو اپنی صورتِ بندگی دے دیں

صرف اپنے لیے جینا ہم نے نہیں سیکھا
چھین لینا جھپٹ لینا ہم نے نہیں سیکھا
اگر کو ئی مانگے تو ہاتھ کھول دیتے ہیں
وفائیں ہم دشمنوں کو بھی بے مول دیتے ہیں

سمجھ پایا نہیں کوئی کسی کے دل کا حال کبھی
کبھی خوشی ملتی ہے کسی سے تو ملال کبھی
صرف پانا نہیں محبت کبھی، کھو کے بھی دیکھتے ہی
خاطر اور کسی کی کسی کا،ہو کے بھی دیکھتے ہیں

تم نفرت کرو ہم سے ہم محبت پھلائیں گئے
چاہ تھا تمہیں جیسے عمر بھر چاہیں گئے
کنولؔ جدا ہو کر بھی کہاں محبوب جدا رہتے ہیں
خاموشی جو کہہ جاتی ہے الفاظ کہاں کہتے ہین

Rate it:
Views: 447
03 Apr, 2013