خاک ہستی کو جمع کر کے بہا لے جائے
زور دریا سے کہو مجھ کو اٹھا لے جائے
ڈال دے لاش پہ میری اندھیرے کا کفن
اور چلتی ہوئی سانسوں کو قضا لے جائے
سانس لیتا ہو کوئی درد مرے سینے میں
دور ایسے میں کوئی میری دوا لے جائے
شام کی زرد اداسی میں روح ایسے گھلے
گرتے سورج کے پیالے کا مزا لے جائے
پٹخ دے میری اصل ذات کسی ساحل پر
ریگ ہستی پہ لکھا میرا نام پتہ لے جائے
ضبط گریہ سے کہو ترس نہ کھائے مجھ پر
اس قدر مجھکو ڈبوئے کہ فنا لے جائے
گھول کر میری سماعت میں خاموشی اپنی
موج ہستی میں دبی ہر اک صدا لے جائے
منزلیں دور سہی ، راستے پر خار مگر،
چلتے جائیں گے جہاں اپنا خدا لے جائے
کھوج ہستی کی اڑاتی ہے ہمیں یوں سدرہ
جیسے ٹوٹے ہوئے پتے کو ہوا لے جائے