خدا شاہد کہ ندرت آفریں ہاتھوں سے کھینچی ہے
تری تصویر جس نے اے حسیں ! ہاتھوں سے کھینچی ہے
نظر آتا ہے کیوں مسکا ہوا سا تار تار آخر
کسی نے کیا تمہاری آستیں ہاتھوں سے کھینچی ہے؟
کیا یہ حشر اس ظالم نے ارمانوں کی میت کا
کہیں پیروں سے روندی ہے، کہیں ہاتھوں سے کھینچی ہے
کہاں ہیں ان کی اس تصویر میں وہ ناز کے تیور
مصور تو نے یہ دل سے نہیں، ہاتھوں سے کھینچی ہے
ادا سجدہ ہوا بے ساختہ یوں ان کی چوکھٹ پر
کسی نے جیسے خود میری جبیں ہاتھوں سے کھینچی ہے
سلگتی ہیں نگاہیں، دل پھنکا، لو دے اٹھیں آنکھیں
تری تصویر کس نے آتشیں ہاتھوں سے کھینچی ہے
مرے سینے پہ رکھ کر ہاتھ، قابو کیا دل کو
مری دولت اداؤں سے نہیں، ہاتھوں سے کھینچی ہے
کھڑے تھے دست بستہ ہم نصیر ان کی حضوری میں
شبیہہ عجز محفل میں انہیں ہاتھوں سے کھینچی ہے