رکو ابھی بات کو ٹل جانے دو
دل کو کچھ قرار تو آنے دو
ابھی تو آغاز ہے تنہائی کا
دل کا اداسی سے بھی تعارف ہو جانے دو
تم نے چھوڑ کر جو زخم دیا تھا
اس زخم کو تھوڑا تو بھر جانے دو
پھر سے جو تم ملنے کی بات کرتے ہو
ابھی پہلی ملاقاتوں کا تو خمار جانے دو
عادت جو اب کچھ ہونے لگی تنہائی کی
پھر سے نہ اب اس دل کو بھیڑ میں جانے دو
تمہیں تو مل جایں گے تم جیسے ہزار بھی
ہمیں ہمارے جیسا کوئی ایک تو مل جانے دو
پھر سے کیوں کر آیں تمہاری باتوں میں
ابھی پچھلی باتوں کی تو کڑواہٹ جانے دو
ڈر لگتا ہے ہمیں اب اجالوں سے رہنے دو اس تاریکی میں
اپنی یاد کے سبھی چراغ بجھ جانے دو