خواہشِ نفس میں کھویا ہوا ہے
ضمیرِ آدمی سویا ہوا ہے
کوئی بھی ربط نہ جیسے رہا ہو
وہ مُجھ سے آج یوں گویا ہوا ہے
نہ کر باتیں وِصال و ھجر کی پھر
کہ دِل پہلے بہت رویا ھوا ہے
ارے لوگو اِسے پاگل نہ سمجھو
کسی کی یاد میں کھویا ہوا ہے
سرِمحشر ندامت کیسی طارق؟
وہی کاٹیں گے جو بویا ہوا ہے