پانی پہ اک لکیر کئے جا رہا ہوں میں
کیوں تاج سا تعمیر کئے جا رہا ہوں میں
ہے میری دسترس میں سمے کی مہار بھی
لمحات کو تحریر کئے جا رہا ہوں میں
کیسی عجیب بات ہے ۔ اک تم سے ہار کر
دل کتنے ہی تسخیر کئے جا رہا ہوں میں
وہ جسکو تو نے رنگ حنا میں چھپا لیا
اس خواب کی تعبیر کئے جا رہا ہوں میں
یوں دیکھتے ہیں میرے جنوں کو وہ غور سے
جیسے کوئی تقصیر کئے جا رہا ہوں میں
جانے یہ میرا جوگ یا وارث کی صدا ہے
ہر نازنیں کو ہیر کئے جا رہا ہوں میں
اس بات پہ ظلمت ہے تیرے شہر کی نالاں
کیوں شہر میں تنویر کئے جا رہا ہوں میں
اب اس سے بڑھ کے اور ہے کس معجزے کی آس
خود کو تیری تصویر کئے جا رہا ہوں میں