خیالوں سے کھیلے نہ خوابوں سے کھیلے
پرستار تیرے گلابوں سے کھیلے
کہیں تجھ سا کوئی بھی لگتا نہیں
ہم زمین آسماں کے مہتابوں سے کھیلے
غم دل میں کتنی حسین زندگی ہے
بھلا کون ایسے نصابوں سے کھیلے
سبھی غم ہماری تمنا بنے ہیں
دل کیوں بھلا اب عذابوں سے کھیلے
تیری آنکھوں کا حسن لکھا گیا نہ
بہت سے قلمدان کتابوں سے کھیلے
سورج بھی کالی گھٹا بن کے برسے
تیری زلف جب بھی سرابوں سے کھیلے
جن ہاتھوں میں ڈور ہے زندگی کی
دل ہے نادان انہی نوابوں سے کھیلے