داستاں تو نہیں ہوں میں ہرگز
اک گُماں تو نہیں ہوں میں ہرگز
ڈھونڈتا ہے مجھے خیالوں میں
پر وہاں تو نہیں ہوں میں ہرگز
ڈانٹئے گا تو شور کر دوں گا
بے زباں تو نہیں ہوں میں ہرگز
تُم کو کھو کر جو مُسکُراتا ہوں
شادماں تو نہیں ہوں میں ہرگز
سر کا سایہ سمجھ کے رکھا ہے
سائباں تو نہیں ہوں میں ہرگز
تُم پہ برسوں کی مہربانی ہے
ناگہاں تو نہیں ہوں میں ہرگز
چوڑیاں تو نہیں پہن رکھیں
ناتواں تو نہیں ہوں میں ہرگز
کہ رہا تھا مجھے اُڑا دے گا
اک دھنواں تو نہیں ہوں میں ہرگز
جانے کیوں تُجھ سے پیار ہے اظہر
مہرباں تو نہیں ہوں میں ہرگز