درد دل کی نہیں دوا کوئی
مغفرت کی کرے دعا کوئی
جان پائے نہ تجھ کو ہم جاناں
ہے پری حور یا بلا کوئی
کب سے تنہا شہر میں پھرتا ہوں
کاش مل جائے آشنا کوئی
کیسے آئے حدود عقل میں وہ
ابتدا ہے نہ انتہا کوئی
آگ واعظ لگا کے بیٹھے ہیں
منتظر ہیں کہ دے ہوا کوئی
کس لئے ہیں حسن پہ اتنے ستم
کیا وہ لگتا ہے آپ کا کوئی