دریا اُداس آنکھ میں شدت عجیب تھی
اک دل ہے میرےپاس محبت عجیب تھی
کتنے طویل ہیں مرے ایّامِ مفلسی
اُس کو ہے میرے حال پہ حیرت عجیب تھی
میرا سکون ، میری وہ خوشیاں خرید کر
کرتا ہے مجھ سے درد کی شرارت عجیب تھی
جس کے سبب کسی کو بھی عزّت نہیں نصیب
پھر بھی وہ سارے شہر میں راحت عجیب تھی
ہر سمت خوں کی بارشیں ، منظر عجیب ہیں
دامن وفا کا دیس میں مزمت عجیب تھی
اس رات کی ہی صبح کا ہم کو یقیں نہیں
اتنی بھی لاجواب طبیعت عجیب تھی
رکھی ہے آپ نے یہاں کانٹوں سے دوستی
وشمہ تمہارے حُسن کی تمازت عجیب تھی