ہوئی دروازے پے دستک کوئی آیا تھا
نکل کے دیکھا تو وہاں ایک سایہ تھا
جنہیں سمیٹا تھا اپنی بند پلکوں میں
کھلی جب آنکھ وہ اپنا نہیں پرایا تھا
وہی جنوں وہی وحشت وہی عاشقی کا موسم
سکوں کی خاطر ہم نے بھی دل جلایا تھا
بھٹکتی روحیں تھیں اور تھیں فراق کی راتیں
سلگتے انگاروں پے توں نے خوں بہایا تھا
تڑپتی سانسیں بھی کرتی ہیں منتشر روح کو
وہ لمحے خواب ہوئے جن میں سکون پایا تھا
ہوئے ہیں راکھ تیرے کوچے کے اڑتے پتے بھی
بھڑکتی آگ میں ہم نے بھی زخم کھایا تھا