دسمبر جب بھی آتا ہے
وہ پگلی پھر سے
بیتے موسم کو یاد کرتی ہے
پرانے کارڈز پڑھتی ہے کہ
جس میں اس نے لکھا تھا
میں لَوٹوں گا دسمبر میں
نئے کپڑے بناتی ہے
وہ سارا گھر سجاتی ہے
دسمبر کے ہر ایک دن کو
وہ گِن گِن کر بِتاتی ہے
جوں ہی پندرہ گزرتی ہے
وہ کچھ کچھ ٹوٹ جاتی ہے
مگر پھر بھی پرانی البم کو کھول کر
ماضی کو بلاتی ہے
نہیں معلوم یہ اس کو
کہ بیتے وقت کی خوشیاں بہت تکلیف دیتی ہیں
محض دل کو جلاتی ہیں
یوں ہی دن بیت جاتے ہیں
دسمبر لَوٹ جاتا ہے
مگر وہ خوش فہم لڑکی
دوبارہ سے کلینڈر میں
دسمبر کے صفحے کو مُوڑ کر
پھر سے دسمبر کے
سحر میں ڈوب جاتی ہے
کہ آخر اُس نے لکھا تھا
میں لَوٹ آؤں گا دسمبر میں