کبھی ہنستے کبھی روتے دسمبر کٹ ہی جاتا ہے
تری یادوں کے بل بوتے دسمبر کٹ ہی جاتا ہے
نئی تنویر لے کر آنیولے وقت کے صدقے
پرانے زخم کو دھوتے دسمبر کٹ ہی جاتا ہے
کبھی جذبوں کی شورش کو آوارہ چھوڑ دیتا ہوں
کبھی کر کر کے سمجھوتے دسمبر کٹ ہی جاتا ہے
گزرتے سال کے لمحوں میں آتے سال کی خاطر
وہی خوس فہمیاں بوتے دسمبر کٹ ہی جاتا ہے
بکھرتی دھند کے آسیب میں خوابوں کے سورج کی
شعائیں سینچتے کھوتے دسمبر کٹ ہی جاتا ہے
کہا کل تتلیوں نے شجر کےبے رنگ پتوں سے
نہ اتنے بے صبر ہوتے دسمبر کٹ ہی جاتا ہے
ٹھٹھرتی شام میں اکثر چمکتی ہیں تری یادیں
جنوں میں کہکشاں بوتے دسمبر کٹ ہی جاتا ہے