دشت جنوں کی شام میں اپنا غم ہلکا کریں
پی کے اک جام یزداں رات کو زندہ کریں
ساقی نے پھر ساز چھیڑا اس دلبراں کی یاد میں
بزم رنداں کے سحر میں جینے کا حوصلہ کریں
رات رنگیں٬ صبح غمگیں٬ ہر پہر میں اک سرور
کھو کے ساغر میں ہوش اپنے راستے متعین کریں
چشم غزلاں میں ایسے الجھے پینے سے نالاں ہو گئے
بھولنے کے اس سفر میں اور جہاں پیدا کریں
اب جلاؤ شمع محفل ان سخن وروں کے نام
کہکشاں کے اس نگر میں اپنا آپ روشن کریں