دشمنوں کی نگاہ میں بھی نہیں
میں کسی کی سپاہ میں بھی نہیں
منزلوں کی کہاں خبر ہے مجھے
رہرو اب تو راہ میں بھی نہیں
حر کہاں ہے مجھے کہاں معلوم
شمر کی اب سپاہ میں بھی نہیں
خود کھڑی ہوں میں اپنے مرقد پر
اشک لیکن نگاہ میں بھی نہیں
خود کو آزاد کر لیا خود سے
اب غلامانِ شاہ میں بھی نہیں
کیا کہوں تجھ سے ملنا ہے وشمہ
دل تو اب تیری چاہ میں بھی نہیں