پکاروں جب بھی آقا کو صدائیں لوٹ آتی ہیں
صدا آتی ہے نا ممکن دعائیں لوٹ آتی ہیں
میں جب بھی ترک اُلفت کو حقیقت سے زرا جانوں
فسانے ٹوٹ جاتے ہیں وفایئں لوٹ آتی ییں
میں اُنکو یوں خطاب بے وفائی سے نوازوں تو
حقیقت پھوٹ جاتی ہے جفائیں لوٹ آتیں ہپں
پگھلتا ہوں بکھرتا ہوں، مگر ایسا ہی ممکن ہے
سحر خود کو سمیٹوں تو خطائیں لوٹ آتیں ہیں