آ گے سے کچھ اور ہی وبال اٹھ گئے
دل ابھی ٹوٹا نہ تھا کہ سوال اٹھ گئے
تجلی انکے حسن کی دیکھی نہ گئی ہمسے
ہوش و خرد سب سارے بہر حال اٹھ گئے
ہمکو نہین معلوم تھا کہ تم بھی ہو موجود
خطا معاف کیجیئے جو بے خیال اٹھ گئے
ہنوز باقی رہ گئے عقل کے اندھے
جو معتبر تھے کبھی لوگ با کمال اٹھ گئے
ایک ہم رہ گئے زندھ اس جہان میں
وگرنہ ! تو اپنے ہم فہم ہم خیال اٹھ گئے
اسد باّغ میں بلبل شوریدھ ھے کیوں کر ؟
کوئی بتلا دو اسے کہ دن محال اٹھ گئے