دل برداشتہ تھے کہ کبھی فوقیت نہیں ملی

Poet: Santosh Gomani By: Santosh Gomani, Mithi

دل برداشتہ تھے کہ کبھی فوقیت نہیں ملی
اچھا ہوا ایک غریب کو یہ غلاظت نہیں ملی

تحسین دیتے ہیں تیرے حسُن کو آج بھی
لیکن بدنصیب ہیں جنہیں تیری قربت نہیں ملی

چاہتوں میں بھٹکتے تو ناسوُر ہوگئے لوگ
بے حوصلوں کو کہنے کی بس ہمت نہیں ملی

روکھا چھوڑدیا اپنے قیاس کو بھی اتنا کہ
ایک بدنام شخص کو کوئی شہرت نہیں ملی

آج بھی ہم اپنے آپ سے مخفی رہتے ہیں
کون کہتا ہے ہمیں کوئی خلوت نہیں ملی

پوچھ بھی لیتے اپنی گمنامی کا قصہ سنتوش
مگر ہمیں خود لیئے کبھی فرصت نہیں ملی

 

Rate it:
Views: 383
06 Jan, 2011