مجھ کو اداس راہِ وفا میں جو کر گیا
میں سوچتا ہوں کون تھا وہ اب کدھر گیا
دیکھا تھا ایک پل کیلئے میں نے دوستو
ایسا لگا کہ وہ مرے دل میں اتر گیا
تنہائیوں میں یاد کیا میں نے جب اسے
آنکھوں سے آنسووں کا سمندر گزر گیا
جوشِ جنوں کا نام سنا تھا بہت مگر
وحشت بڑھی تو اپنے ھی سائے سے ڈر گیا
محسوس یوں ہوا مجھے ماضی کی یاد میں
دل بے وفا کے عشق میں بے موت مر گیا
رکھا تھا اپنی جان سے ذیادہ جسے عزیز
تنھا مجھے وہ راہِ محبت میں کر گیا
اٹھ اٹھ کے لہریں درد کی کہتی ہیں بار بار
چاھا تھا جس کو ٹوٹ کر میں نے‘کدھر گیا
وہ پا سکا نہ منزلِ مقصود اے نثار
جو مشکلاتِ گردشِ دوراں سے ڈر گیا