مرحلہ اک تمام ہونے کو ہے
دل فقط آپکے نام ہونے کو ہے
وہ کہانی خفی تھی اب تک
تذکرہ اس کا عام ہونے کو ہے
چل ابھی گردشوں کو چھو آئیں
وقت کا انتظام ہونے کو ہے
میرا تم کو خیال تو ہو گا
چلے بھی آؤ شام ہونے کو ہے
رک گئے اشک آ کے پلکوں پہ
بے خودی بے لگام ہونے کو ہے
اے میرے شوق انتظار ذرا
راستوں کو دوام ہونے کو ہے
طاق میں حیرتوں کو رہنے دے
آرزو ! تیرا کام ہونے کو ہے
آبلہ پائی کا اب ذکر نہ کر
اب تو منزل دو گام ہونے کو ہے
میکدے کی نہیں محتاج لذت
اب تو ہر زخم جام ہونے کو ہے