دل میں نفرت کی وہ دیوار اٹھا دیتا ہے
رنجشوں کو کوئی دانستہ ہوا دیتا ہے
رخ سے پردہ وہ زرا سا جو ہٹا لیتا ہے
چاند کیوں خود کو گھٹاؤں میں چھپا دیتا ہے؟
ہوش اڑ جاتا ہے، سنبھلا نہیں جاتا مجھ سے
پردہ جب جب بھی وہ چہرے سے ہٹا دیتا ہے
آپ کا آنا یوں محفل میں سنور کر اتنا
بزم کو اور بھی رنگین بنا دیتا ہے
کیوں مہکتی ہے ہمیشہ یہ لحد کی مٹی؟
کون چادر نئی پھولوں کی چڑھا دیتا ہے ؟
نہ سمجھ اپنے سے کمزور کسی کو تنظیمؔ
داغ سورج میں بھی اک چاند لگا دیتا ہے