نرم شاخ کے جیسی ہے کھلتے گلاب کے جیسی ہے
صورت اس قدر شاداب ہے حُسن و جمال کے جیسی ہے
پلکیں جھکانے سے جھک جائے حہاں اُٹھانے سے مہک جائے سماں
تیری آمد سے گلستان چہک رہا ہے تو بہار کے موسم کے حیسی ہے
میری خوابگاہ میں آ کر میری نیند چُرا لے جاتی ہے
چمک دکھا کر میرے ہوش اُڑا لے جاتی ہے
نزدیک آ کر اس قدر کیوں دور چلی جاتی ہے
میرے دل میں ہلچل مچاتی ہے میری بے قراری کے جیسی ہے
سوچتا ہوں کب اپنے چہرے سے نقاب اُٹھائے گی
صورت دکھائے گی جب پھر مجھے چین کی نیند آئے گی
مجھے بے چین کر کے کیسی پُر مسرت ہے ساون کی گھٹا
جھوم رہی ہے مسرور ہے مہکی آوارہ فضاء کے جیسی ہے
جلوے دکھا کر خوابوں میں آ کر اس طرح کیوں ستاتی ہے
گھونگھٹ اگر اُٹھانا نہیں تو اپنی جھلک پھر کیوں دکھاتی ہے
مار ڈالیں گیں تیری یہ ادائیں میرے محبوب سمجھا کر
بھول سکتا ہوں کیسے تمہیں میرے دل پر نقش تصویر کے جیسی ہے