ہونٹوں پہ تیرے درد کے نغمات سجا دوں
میں وہ ہوں کہ جذبات کو انمول بنا دوں
تم حکم دو تو تم کو دکھاؤں طلسم شوق
بے ربط دھڑکنوں میں کوئی ساز چھپا دوں
میں خود ہی تمہیں چھوڑ کے آگے نکل گیا
میں چاہتا تھا وحشتوں میں جینا سکھا دوں
ہاں میں ہی وہ پتھر ہوں جو کتبوں پہ سجا ہے
میں ہی سلوں میں ڈھل کے کہیں تاج بنا دوں
یہ آپ جو تھک ہار کے بیٹھے ہو میری جان
دل کہہ رہا ہے آج کوئی خواب نیا دوں
یونہی تو نہیں روشنی آئی برہنہ پا
میں لفظ کی تفسیر میں کرنوں کو سجا دوں