دل کی الجھن پسِ دیوار کہیں رہ جائے
یوں نہ ہو یار کہیں پیار کہیں رہ جائے
بس یہی سوچ کہ نیندوں کو بھلا ڈالا ہے
یاد بھی تیری نہ مسمار کہیں رہ جائے
موت سے پہلے تُو وعدوں کو وفا کر لے صنم
میرے بن تُو نہ شرمسار کہیں رہ جائے
کاش اندر کا بھی انسان کبھی جاگ اٹھے
روح ہو پاک گنہگار کہیں رہ جائے
میں اسے ساتھ اٹھائے نہیں پھر سکتا ہوں
دل جو ہے تیرا طلبگار کہیں رہ جائے
آج پھر مجھ کو میسر نہیں مے کی بوتل
آج پھر تیرا نہ دیدار کہیں رہ جائے
مرگ دو پل کی اجازت دے میں اس سے مل لوں
میرے محسن کا نہ دربار کہیں رہ جائے
مجھ کو اک پل نہیں دیدار جو دیتا باقرؔ
وہ زمانے کا وفادار کہیں رہ جائے